Saturday, November 5, 2022

Abdul Salam Naz ( عبدالسلام ناز)

 عبدالسلام ناز  گلگت بلتستان کے مشہور اور مایہ ناز ڈرامہ رائٹر، ڈائریکٹر، پروڈوسر، شاعر، قلمکار، ناول نگار، افسانہ نگار،  سفر نامہ نگار اور تاریخ نویس ہیں۔ انہوں نے دو سو زائد کتابیں اردو ادب کی بیشمار اصناف پر تحریر کی ہیں۔

ان کا شمار گلگت بلتستان کے پہلے صاحب کتاب ناول نگار، سفر نامہ نگار اور ڈرامہ گار میں ہوتا ہے۔انہیں2012 میں منسٹری آف یوتھ افیئرز پاکستان کی جانب سے ان کی ادبی سرگرمیوں کیلی بنا پر یوتھ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔

عبدالسلام ناز کا تعلق گلگت کے ایک تاریخی اور مرکزی محلے کشروٹ سے ہے۔ وہ 11 مارچ 1982 کو گلگت کے ایک قصبہ جگلوٹ میں پیدا ہوئے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ان کے والد عبدالرازق فوج میں ملازمت کرتے تھے اور اسی سلسلے میں اس قصبے جگلوٹ میں گھرانے کے دیگر افراد کے ہمراہ مقیم تھے۔ یہ بھی ایک حسن اتفاق ہے کہ عبدالسلام ناز 1982 میں پیدا ہوئے اور ٹھیک اسی عرصے میں ان کے والد بھی فوج کی ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ یہ گھرانہ پھر اپنے آبائی گاوں گلگت (کشروٹ) میں ہمیشہ کے لئے مقیم ہوگئے۔ 

عبدالسلام ناز نے ابتدائی تعلیم گلگت کے ایک نجی تعلیمی ادارے " تعمیر نو پبلک اسکول کشروٹ " میں حاصل کی۔ یہ ادارہ ابھی ریڈ فاؤنڈیشن میں ضم ہو گیا ہے۔ عبدالسلام ناز نے میٹرک تک تعلیم اسی تعلیمی ادارے میں حاصل کی، اس کے بعد انہیں شہر سے باہر جا کے کسی بڑے تعلیمی ادارے میں تعلیم پانے کا شوق ہوا۔ انہیں بچپن ہی سے ایک اداکار ، رائٹر اور ڈائریکٹر بننے کا شوق تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ آگے چل کر پیشہ ورانہ طور پر اسی شعبے سے وابستہ اور منسلک ہو جائیں، لیکن ان کا گھرانہ مانع ہو گیا۔ان کے گھرانے کے بڑے افراد چاہتے تھے کہ عبدالسلام ناز اپنی قابلیت کے مطابق ایک ڈاکٹر بنے، لیکن انہیں سائنسی علوم سے رغبت نہ تھی، وہ چاہتے تھے کہ علمی و ادبی میدان میں وہ کار ہائے نمایاں انجام دیں۔ یہی وجہ بنی کہ وہ اور ان کے گھرانے کے درمیان ان کی تعلیم کو لے کر ایک سرد جنگ کا آغاز ہو گیا۔ میٹرک کے امتحان میں عبدالسلام ناز کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکے۔ سائنسی علم سے عدم توجہی  یا دلچسپی کی بنا پر ان کے دو سائنسی مضامین میں کمپاٹ آئی۔ یہ دو مضامین انہوں نے جیسے تیسے بعد میں پاس کر لئے اور اس کے بعد وہ گھر والوں سے بغاوت کرلے سائنس سے آرٹس آرٹس کے شعبے میں منتقل ہو گئے۔ اس بغاوت کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے گھر والوں نے ان کی مالی معاونت سے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔

یہ 1999 کی بات ہے جب ان زمانوں میں گلگت بلتستان میں نیم سرکاری اسکولز اور کالجز کی بہتات نہیں تھی۔ سرکاری اسکولوں میں بھی آرٹس کا کوئی خاص شعبہ نہیں تھا۔ اس کے پیش نظر انہیں اپنے دیرینہ شوق کی تکمیل کے لئے گلگت بلتستان کی فضاؤں سے باہر راولپنڈی اور اسلام آباد کا رخ کرنا پڑا۔ وہاں پہچنے کے بعد انہیں کئی نوعیت کی دقتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا گھرانہ مالی معاونت کے سلسلے میں دستبردار ہو گیا تھا۔حصول تعلیم کو ممکن بنانے اور دیگر ضروریات کی فراہمی کے لئے انہیں پردیس میں مالی معاونت کی اشد ضرورت تھی۔ 

ان حالات سے وہ پہلے ہی بے خبر تھے۔ 1999 میں ان کے شوق کو مہمیز دینے کے لئے ان کے ایک بڑے بھائی عبدالخالق انہیں ہر ماہ مبلغ پندرہ سو کا منی آرڈر بھیجتے تھے۔ جو ان کی ضرورتوں کے لئے ناکافی تھا۔ لیکن پھر بھی انہوں نے سرنڈر کرنا گوارا نہ کیا۔ بلکہ ان پیش آمدہ مالی مشکلات کا بے جگری سے مقابلہ کیا۔